Nojawan Qoum ka Mustaqbil hua karte hain

نوجوان، قوم کا مستقبل ہوا کرتے ہیں......................................... آج کے اس چھوٹے سے مقالے میں نشہ آور اشیاء کا استعمال اور اس کے نقصانات نوجوان نسل کے حوالے سے گفتگو کی جائے گی. کسی بھی سماج کی تعمیر و ترقی کا اصل مدار قوم کے نوجوان طبقہ پر ہوتا ہے.نوجوان کی جیسی تربیت ہوئی ہوگی وہ اس کا ویسا مظاہرہ کرے گا . فرد سے معاشرہ تشکیل پاتا ہے اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ معاشرے میں اچھے اور برے دونوں اقسام کے افراد پائے جاتے ہیں مگر اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ تربیت کا عمل دخل کافی حد تک اثر انداز ہوتا ہے سماج میں برے لوگوں کی صحبت اختیار کرنے والے افراد کی اکثریت غلط راہ پر گامزن ہوجاتی ہے ٹھیک اسی طرح نیک، اچھے کردار اور باخلاق لوگوں کی صحبت میں رہنے والے فرد و بشر بھی یقیناً نیک، اچھے اور پرہیزگار ہوا کرتے ہیں. مثال کے طور پر اگر ایک نوجوان نمازی ہے اور دوسرا اس کا دوست جو ہمیشہ اس کی صحبت میں رہتا ہے مگر وہ نماز کا پابند نہیں تو امید کی جا سکتی ہے کہ نمازی کی اچھی صحبت اس سے بھی نمازی بنا دے. ٹھیک اسی طرح اگر ایک دوست نشہ آور اشیاء کا استعمال کرتا ہے اور اس کا دوست نشہ نہیں کرتا تو گمان اس بات کا ہے وہ بھی جلد نشئی بن کر معاشرے کے لئے ایک ناسور بن جائے گا. آج ہمارے معاشرے میں یہی سب ہو رہا ایک دوسرے کو دیکھ کر ہر کام کو بغیر سمجھ سوچ انجام دیا جا رہا ہے بھلے ہی اس کا نتیجہ جو بھی ہو بعض بچے دسویں بارہویں جماعت میں ہی ای دوسرے کو دیکھ کر اس بری عادت کا شکار ہو جاتے ہیں مگر اس کی سرپرستوں کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی، والدین کو پیغام پولیس کی طرف سے پہونچتا ہے کہ جناب آپ کا صاحبزادہ پولیس ریمانڈ میں ہے کیوں جناب ہمارے بچے نے کیا جرم کیا ہے پولیس کی طرف سے جب یہ جواب ملتا ہے کہ جناب آپ کا بچہ ڈرگس کے ساتھ پکڑا گیا ہے یا اس نے شراب نوشی کی ہوئی ہے اس کو ہم نے فلاں نالی سے اٹھا کر لایا ہے تو والدین جیتے جی مر جاتے ہیں شرم سے ان کے سر جھک جاتے ہیں پھر پولیس اسٹیشن جا کر پولیس کی باتیں الگ سے سننی پڑتی ہیں بیچارے والدین کریں تو کریں کیا جائیں تو جائیں کہاں؟ اس میں والدین بھی مجرم ہیں وہ اس لیے کہ انہوں نے وقت پر اپنے بچے پر توجہ نہ دی کہاں سے آیا ہے کہاں جا رہا ہے اس کے دوست کون کون ہیں؟ ان کا طریقہ کار کیا ہے؟ وغیرہ وغیرہ بچے پر اگر کڑی نگاہ رکھی ہوتی تو شاید آج یہ دن دیکھنے کو نہ ملتا. دورے حاضر کا المیہ یہ ہے کہ لوگ اپنے بچوں کی غلط کاموں پر بھی حوصلہ افزائی کرتے نظر آتے ہیں یہی وجہ ہے کہ وہی بچہ آگے چل کر ایسے گرو سے ملتا ہے جو گروہ دوسروں سے الگ نظر آنے اور برق رفتار زندگی کا مقابلہ کرنے کیلئے بڑا طبقہ جانے انجانے میں نشیلی اشیاء کا استعمال بڑے پیمانے پر کر رہا ہے اور اس برائی نے آج ایک بڑے سماجی مسئلے کی حیثیت اختیار کرلی ہے، اس کے شکار لوگوں میں بڑی تعداد ان کی ہے جو نہ صرف اپنی ذہنی پریشانی یا اقتصادی بحران سے نجات پانے کیلئے نہیں بلکہ موج، مستی کا لطف لینے کیلئے ڈرگس لیتے ہیں، لیکن ان کے علاوہ بھی لاکھوں نوجوان اور ایسے ہیں جن کی دنیا پوری طرح نشے میں ڈوبی ہوئی ہے۔ پوری دنیا میں 26 جون کو نشہ آور اشیاء کے تباہ کن نتائج کے خلاف توجہ دلانے کے لئے ''عالمی یوم منشیات'' منایا جاتا ہے ۔ یہ اس شعبہ میں جاری سرگرمیوں اور ان کا مقابلہ کرنے کی حکمت عملیوں کے ساتھ ساتھ نشہ آور اشیاء کے استعمال اور کاروبار کی روک تھام کے طریقے اور قوانین کا تجزیہ کرنے کا موقع بھی ہوتا ہے لہذا اس دن ہمارا سماج منشیات کی لعنت کو اپنے ملک اور معاشرہ سے ختم کرنے کے بعض کارگر پروگرام پر غور وخوض کرکے ان پر عمل کرنے کا عزم کرسکتے ہیں اور نشہ کے عادی لوگوں کو بتا سکتے ہیں کہ ان کی زندگی اور سماج پر اس کے کتنے مضمر اثرات مرتب ہورہے ہیں زندگی اور سماج نشہ کی وجہ سے مکمل طور پر برباد ہو جاتے ہیں جس معاشرے میں نوجوان نسل نشہ کی عادی ہو جائے وہ معاشرہ کبھی بھی ترقی نہیں کر سکتا، ایسے معاشرے میں عالم، حافظ، قاری، سائینسدان، پروفیسر، ڈاکٹر، انجنیئر، استاد، کی پیدائش تو دور کی بات یہاں تک کہ انسانوں کے پیدا ہونے کی امید بھی صفر ہو جاتی ہے جب نوجوان نشہ کا عادی ہو جاتا تو وہ تعلیم سے کئی میل دوری اختیار کر لیتا ہے جس سے اس کی دنیا و آخرت دونوں برباد ہو جاتی ہیں. دوسری جانب والدین اور معاشرہ ایسے لوگوں سے حد درجہ پریشان ہوتا ہے معاشرے کو اپنے بچوں کی فکر لاحق ہوتی ہے کہ نجانے ہماری اولاد کے ساتھ کیسا سلوک ہوگا پتا نہیں وہ بھی نشئی بن جائیں گے جب نشئی کو نشہ آور اشیاء کی خرید و فروخت کے لیے گھر سے پیسہ روپیہ نہیں ملتا تو وہ گھر میں لڑائی جھگڑا کرتا ہے اس کے بعد پھر محلے گاؤں میں چوری کرتا ہے، گھر کا ساز و سامان فروخت کر دیتا ہے اور آخر میں اس سے اپنی جان سے ہاتھ منھ دھونا پڑتا ہے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی، ماں باپ پر تکالیف کا پہاڑ توڑ کر وہ نوجوان معاشرے کی بھلائی کیسے کر سکتا. مزید ایسے نوجوانوں کی وجہ سے معاشرے کی نوجوان بچیوں کی عزت تک محفوظ نہ ہے.وہ نوجوان جو نشہ کرنے کی وجہ دماغی طور پر بھی سلامت نہ ہوں انہیں معاشرے میں گندی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے لوگ مزاق اڑاتے ہیں پھر ایک دن ایسا بھی آتا ہے انہیں نہ کوئی لڑکی کا رشتہ دیتا ہے اور نہ ان کی بہن، بیٹی کا رشتہ کرتا ہے بلکہ ایسے لوگوں سے عزت دار آدمی اپنا رشتہ جوڑنے سے بھی ڈرتا ہے اور یہ حقیقت ہے اس کا کوئی انکار بھی نہیں. لہذا معاشرے کے تمام افراد کی یہ ملی ذمہ داری ہے کہ اپنی اپنی اولاد پر کڑی نگاہ رکھیں اگر وہ آپکی پہنچ سے باہر ہیں تو پولیس سے رابطہ کریں اس کو چند روز کال کوٹھڑی میں رکھیں ہو سکتا ہے سدھر جائے اگر یہی حال رہا تو وہ دن دور نہیں جب والدین کو اپنی تمام جمع پونجی فروخت کر کے اپنے بچوں کے لیے نشہ آور اشیاء خرید کر لانی پڑیں مزید ان شر پسند عناصر کے خلاف شدت کے ساتھ جنگ لڑنی ہوگی جو انسانی نسل کشی کا کاروبار کرتے ہیں. یاد رکھیں جس قوم کے نوجوان نشئی یا ناکارہ ہوتے ہیں اس قوم کا کوئی مستقبل نہیں اپنے اس مستقبل کو ہرا بھرا رکھنے کے لیے ہم سب کو متحد ہو لڑنا ہوگا نہیں تو اپاہیچ بن کر ہر ظلم کو اپنی آنکھوں سے دیکھنا ہوگا آج نہیں جاگے تو کل تک بہت تاخیر ہوچکی ہوگی. کسی دانا کا مشہور قول ہے جو قوم ظلم کے خلاف جتنی تاخیر سے اٹھتی ہے اس قوم کو اتنی ہی زیادہ قربانیاں بھی دینی پڑتی ہیں. محمد صدیق قادری ریسرچ اسکالر شعبہ اسلامیات جامعہ Copy paste ہمدرد یونیورسٹی نئی دلی

Comments

Popular Posts