""" قوم کی پچوں والی حرکت
*🔹 [ قوم کی "بچوں والی حرکت" ] 🔹*
کئی دفعہ ایسا ہوا کہ کوئی بچہ سیدھا چلتے چلتے اچانک گاڑی کے سامنے آگیا۔ میں گاڑی آہستہ ہی چلاتا ہوں اس لئے آج تک الحمدلله کوئی حادثہ نہیں ہوا۔ بچوں کے رویوں کا جائزہ لینے کے لئے ایسا میں نے کئی مرتبہ کیا کہ گاڑی انتہائی آہستہ کرتے ہوئے آخر میں جان بوجھ کر اتنی سی ٹکر بچے کو دی کہ اس کو نہایت ہلکا سا دھکا لگے۔
ذیادہ تر بچوں کا ردعمل یہی تھا کہ انہوں نے گردن اکڑا کر کہا *" ارے دیکھ کے گاڑی چلاؤ نااا۔۔۔. "* اور بعض نے اس سے کچھ آگے بھی بڑھ کر کہا *" دیکھ کر چلا نا رے۔۔۔"*
اور بہت کم ایسے ملے جنہوں نے اس ہلکے سے حادثے سے خود کے لئے سبق لیا اور اپنی چال آہستہ کی۔ آگے سڑک پر دیکھ کر چلنے لگے یا خود اپنی جانب سے غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے معافی مانگ لی۔
افسوس کی بات ہے کہ من جملہ قوم کا یہی مزاج بنا ہوا ہے۔ بحثیت قوم کئی دہائیوں سے ہماری ٹھکائی ہو رہی ہے اور ہم کفار کی سازشوں پر رونے دھونے، یہودیوں کی طاقت پر ماتم کرنے، مسلمانوں کے ساتھ ہورہے مظالم کا کوسنا کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں کررہے۔
ذیادہ سے ذیادہ بات جو کرکے ہم خوش ہوجاتے ہیں کہ بڑا ہمت کا کام انجام دیا وہ یہی *"بچوں والی حرکت"* ہی ہے کہ دھرنا دے دیا، جلوس نکال لیا، میمورنڈم دے دیا کہ حکومت سیدھا رہے، یوں کرے، توں کرے، ایسا کرے، ویسا کرے اور بس۔
اور جو ہم راہ ہدایت سے بھٹک کر سالوں سے چالِ بے ڈھنگی اختیار کیے ہوئے ہیں اور جو ہماری حالت کی حقیقی ذمہ دار ہے اس کے سدھار کے لئے ہم نے کیا کیا؟
اگر آپ سمجھتے ہیں کہ کوئی اسٹیج لگا کر زور دار آواز میں لاکھوں کے مجمعے میں ظالم کو للکارے اور لوگ اس کی اس دھنواں دھار تقریر سن کر نعرہء تکبیر کی صدائیں بلند کریں تو امت کے مسائل حل ہوجائیں گے تو جناب ابھی آپ کی سوچ " بچوں والی" ہی ہے۔ آپ کو ذرا سمجھدار ہونے کی ضرورت ہے۔
کئی نوجوان قوم کو آگے لے جانے کے جذبے سے اٹھتے ہیں اور انکا کا اصل مقصد بس یہیں تک ہوتا ہے کہ ایک لیڈر بن کر الیکشن جیتوں۔ پہلے سڑکوں، نکڑوں، ریلیوں، مورچوں میں چیخوں چلاؤں پھر اسکے بعد کارپوریشن، اسمبلی یا پارلیمنٹ میں۔ پھر اب کیا کرنے کا؟ نہیں معلوم۔
میرا یہ سب لکھنے کا مقصد مسئلے کا ایک حل پیش کرنا نہیں بلکہ بحثیت قوم بن چکی ہماری ذہنیت (Mentality) کی طرف اشارہ کرنا ہے۔ کہ ہمارے پاس ہر مسئلے حل "دشمن کو منہ توڑ جواب" دینا بن گیا۔ حالات کا دقیق نظری سے جائزہ لیتے ہوئے خود احتسابی کرنا اور اپنے آپ کی اصلاح کرنا ہم نے چھوڑ دیا۔
قومِ یونس علیہ السلام ایک واحد مثال ہمارے پاس ہے جس نے عین وقت پر خود احتسابی کی اور عذاب سے بچ گئے۔ اور جنہوں نے اپنا جائزہ لے کر اصلاح کی روش نہیں اپنائی ایسی تباہ شدہ قوموں کی مثالیں تو پھر کئی ہیں.
منقووول
Comments
Post a Comment